یہ چند سطور آج نظر سے گزریں – آپ بھی دیکھیں –

“ہمارے مشائخ خدا بھلا کرے ان بزرگوں کا اب ویسے نہیں جیسے ان کے آبا تھے -آستانے وہی ہیں مگر بات وہ نہیں – طریقت اپنے طریقے بدل گئی – میں یہ نہیں کے رہا کے   سب جوٹے ہیں میں صرف یہ کہ رہا ہوں کے سب سچے نہیں – جوٹے کے نشان دیہی کون کرے گا ؟ جب قرب  سلطان مسلک بن جائے تو رہ  سلوک مسدود ہو جاتی ہے- جب اہل باطن اہل ثروت کا تزکیہ نہ کریں تو ان کا تقرّب حرام ہے – فقرا اسلامی ملک میں بھی اخفا سے کام لیں تو مصلحت اندیشی ہے اور مصلحت اندیش درویش نہیں ہو سکتا – خانقاہ کا ادارہ ٹوٹ پوٹ کا شکار ہو رہا ہے – کسی کو غم نہیں ،کسی کو فکر نہیں – میں صرف اس انسان سے مخاطب ہوں جو اس وقت باطنی نظام میں فائز ہے – وہ قوم میں موجود بے رہ روی کی ذمداری قبول کرتا ہے یا صرف اپنے مرتبے ہی میں مگن ہے ؟  ہم اس سے سوال کرتے ہیں کے عالی مرتبت ہم آپ کا انتظار کریں کے اپنا بیڑا خود ہی پار کریں – خوابیدہ قوت سے کمزور بیداری بہتر ہے –

“لا خوف ” کی منزلیں طے کرنے والو ، ساری ملت کو خوفزدہ ہی رکھنا  ہے کے “لا تقنطوا ” کی شرح بھی ہو گی -……………….کوئی بے بصر مرید اس بیباکی کو گستاخی نہ سمجے –  یہ ہماری انکی بات ہے – رازو نیاز کی رمزیں ہیں -”

واصف علی واصف